وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں
یہ مے فروش تو ٹوپی اتار لیتے ہیں

یہ پاس پردہ نشینوں کا ہے کہ نالے بھی
جو اونچے ہوتے ہیں پردہ پکار لیتے ہیں

وہ کہتے ہیں ابھی اللہ اتنی طاقت ہے
جو کروٹیں کبھی ہم بے قرار لیتے ہیں

بچائیں گے گل و بلبل کو دام گلچیں سے
جو کوئی پہنچے تو فصل بہار لیتے ہیں

یہی ہیں کام نکلتا ہے جن کا بے طاعت
مزے کرم کے ترے شرمسار لیتے ہیں

اترتے عرش سے ڈرتا ہے تو دعا والے
اثر کو ہاتھ بڑھا کر اتار لیتے ہیں

شراب کے لیے مے نوش منہ ہیں پھیلائے
جمھائیاں نہیں وقت خمار لیتے ہیں

گناہ گار ہیں اتنے ہی ان بتوں کے ہم
کہ پانچ وقت خدا کو پکار لیتے ہیں

جما یہ رنگ کہ اب وقت زمزمہ سنجی
چمن میں مجھ کو عنادل پکار لیتے ہیں

پئے ہوں کتنی ہی لیکن یہ ہوش رہتا ہے
کہ سوتے وقت وہ زیور اتار لیتے ہیں

ریاضؔ باتوں میں اپنی اگر نہیں جادو
پری کو شیشے میں یوں ہی اتار لیتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse