وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجئے
by اختر شیرانی

وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجئے
رات دن صورت کو دیکھا کیجئے

چاندنی راتوں میں اک اک پھول کو
بے خودی کہتی ہے سجدہ کیجئے

جو تمنا بر نہ آئے عمر بھر
عمر بھر اس کی تمنا کیجئے

عشق کی رنگینیوں میں ڈوب کر
چاندنی راتوں میں رویا کیجئے

پوچھ بیٹھے ہیں ہمارا حال وہ
بے خودی تو ہی بتا کیا کیجئے

ہم ہی اس کے عشق کے قابل نہ تھے
کیوں کسی ظالم کا شکوہ کیجئے

آپ ہی نے درد دل بخشا ہمیں
آپ ہی اس کا مداوا کیجئے

کہتے ہیں اخترؔ وہ سن کر میرے شعر
اس طرح ہم کو نہ رسوا کیجئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse