وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
by جگر مراد آبادی

وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہماری ابتدا تا انتہا یوں بھی ہے اور یوں بھی

تعجب کیا؟ اگر رسم وفا یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہ حسن و عشق کا ہر مسئلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی

کہیں ذرہ کہیں صحرا کہیں قطرہ کہیں دریا
محبت اور اس کا سلسلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی

وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ایک مقصد میری ہستی کا
بتاؤں کیا کہ میرا مدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی

ہم ان سے کیا کہیں وہ جانیں ان کی مصلحت جانے
ہمارا حال دل تو برملا یوں بھی ہے اور یوں بھی

نہ پا لینا ترا آساں نہ کھو دینا ترا ممکن
مصیبت میں یہ جان مبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی

لگا دے آگ او برق تجلی دیکھتی کیا ہے
نگاہ شوق ظالم نارسا یوں بھی ہے اور یوں بھی

الٰہی کس طرح عقل و جنوں کو ایک جا کر لوں
کہ منشائے نگاہ عشوہ زا یوں بھی ہے اور یوں بھی

مجازیؔ سے جگرؔ کہہ دو ارے او عقل کے دشمن
مقر ہو یا کوئی منکر خدا یوں بھی ہے اور یوں بھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse