وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
by نظیر اکبر آبادی

وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
تو مہ کے طشت میں گھی کے چراغ چلتے ہیں

پڑے ہوس ہی ہوس میں ہمیشہ گلتے ہیں
ہمارے دیکھیے ارمان کب نکلتے ہیں

ہجوم آہ ہے آنکھوں سے اشک ڈھلتے ہیں
بھرے ہیں چاؤ جو دل میں سو یوں نکلتے ہیں

چراغ صبح یہ کہتا ہے آفتاب کو دیکھ
یہ بزم تم کو مبارک ہو ہم تو چلتے ہیں

برنگ اشک کبھی گر کے ہم نہ سنبھلے آہ
یہی کہا کئے جی میں کہ اب سنبھلتے ہیں

نکالتا ہے ہمیں پھر وہ اپنے کوچے سے
ابھی تو نکلے نہیں ہیں پر اب نکلتے ہیں

فدا جو دل سے ہے ان شوخ سبزہ رنگوں پر
یہ ظالم اس کی ہی چھاتی پہ مونگ دلتے ہیں

ہوا نحیف بھی یاں تک کہ حضرت مجنوں
یہ مجھ سے کہتے ہیں اور ہاتھ اپنے ملتے ہیں

کوئی تو پگڑی بدلتا ہے اور سے لیکن
میاں نظیرؔ ہم اب تم سے تن بدلتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse