وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
Appearance
وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
تو مہ کے طشت میں گھی کے چراغ چلتے ہیں
پڑے ہوس ہی ہوس میں ہمیشہ گلتے ہیں
ہمارے دیکھیے ارمان کب نکلتے ہیں
ہجوم آہ ہے آنکھوں سے اشک ڈھلتے ہیں
بھرے ہیں چاؤ جو دل میں سو یوں نکلتے ہیں
چراغ صبح یہ کہتا ہے آفتاب کو دیکھ
یہ بزم تم کو مبارک ہو ہم تو چلتے ہیں
برنگ اشک کبھی گر کے ہم نہ سنبھلے آہ
یہی کہا کئے جی میں کہ اب سنبھلتے ہیں
نکالتا ہے ہمیں پھر وہ اپنے کوچے سے
ابھی تو نکلے نہیں ہیں پر اب نکلتے ہیں
فدا جو دل سے ہے ان شوخ سبزہ رنگوں پر
یہ ظالم اس کی ہی چھاتی پہ مونگ دلتے ہیں
ہوا نحیف بھی یاں تک کہ حضرت مجنوں
یہ مجھ سے کہتے ہیں اور ہاتھ اپنے ملتے ہیں
کوئی تو پگڑی بدلتا ہے اور سے لیکن
میاں نظیرؔ ہم اب تم سے تن بدلتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |