وہ واقعات کسے یاد اک زمانہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ واقعات کسے یاد اک زمانہ ہوا
by صفی اورنگ آبادی

وہ واقعات کسے یاد اک زمانہ ہوا
کسی نے کیا نہ کیا اور ہم پہ کیا نہ ہوا

مرا برا تو مرے حسب مدعا نہ ہوا
بھلا ہوا بھی تو کوئی مرا برا نہ ہوا

دکھاتے ہم دل پر داغ کی بہار اسے
یہ منظر اور ذرا سا بھی خوش نما نہ ہوا

کسی کا درد محبت اگر تھا کم مایہ
تو ٹھہر ٹھہر کے پھر کیوں ذرا ذرا نہ ہوا

ترا ارادہ مبارک تجھے مگر اے دل
یہ نقش پا اگر اس کا ہی نقش پا نہ ہوا

ستم کرے بھی تو سمجھوں کہ یہ ستم ہی نہیں
خفا ہوا بھی تو جانوں کہ تو خفا نہ ہوا

کیا جب آنے کا اقرار آپ بھول گئے
یہ ایک وعدہ تو شاید کبھی وفا نہ ہوا

زمانہ آپ کو عاشق نواز کہتا ہے
یہ سچ بھی ہو تو کبھی ہم کو کچھ عطا نہ ہوا

وہ کیا کہیں گے جو اقبال ہی نہ ہو مجھ کو
وہ کیا کریں گے جو میں قابل خطا نہ ہوا

اگرچہ شیخ میں لاکھوں کرامتیں آئیں
مگر یہ بندے کا بندہ رہا خدا نہ ہوا

رضائے دوست کے ہوتے ہیں اور کیا معنی
کہ مجھ سے ان کا کبھی آج تک گلا نہ ہوا

وہ خود ملے تو بتا کیا جواب دوں اے دل
یہ عذر لنگ ہے کوئی بھی رہنما نہ ہوا

صفیؔ نصیب برے ہوں تو کیا کرے کوئی
نہیں تو قیس بھی کچھ آدمی برا نہ ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse