وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا
by ثاقب لکھنوی

وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا
کبھی شمع بھی نہ روتی جو مرا مزار ہوتا

شب غم میں زندگی کا کسے اعتبار ہوتا
مری جان جا چکی تھی جو نہ انتظار ہوتا

مری داستان غم کو وہ غلط سمجھ رہے ہیں
کچھ انہیں کی بات بنتی اگر اعتبار ہوتا

یہی سوز عشق جس کو میں ہمیشہ راز سمجھا
جو حجاب دل نہ جلتا تو نہ آشکار ہوتا

میں شکایت زمانہ جو کروں تو کیا سمجھ کر
نہ یہ دور چرخ ہوتا نہ یہ روزگار ہوتا

دل پارہ پارہ تجھ کو کوئی یوں تو دفن کرتا
وہ جدھر نگاہ کرتے ادھر اک مزار ہوتا

مئے عشق جوش زن ہے یہ لہو نہیں رگوں میں
مرا نشہ کیوں اترتا مجھے کیوں خمار ہوتا

مرے دل نے بڑھ کے روکا ترے تیر جاں فشاں کو
جو یہ بیچ میں نہ پڑتا تو جگر کے پار ہوتا

وہ لحد پہ ان کا آنا وہ قدم قدم پہ محشر
مری نیند کیوں اچٹتی اگر ایک بار ہوتا

شب ہجر بعد میرے اگر اس جہاں میں رہتی
تو یہی سیاہ دفتر مرا یادگار ہوتا

جو ہمارے دیکھنے کو کبھی آپ آ نکلتے
وہی آنکھ در پہ ہوتی وہی انتظار ہوتا

وہ شباب کے فسانے جو میں سن رہا ہوں دل سے
اگر اور کوئی کہتا تو نہ اعتبار ہوتا

یہ زمانہ بڑھ رہا ہے فقط اضطراب دل سے
شب غم نہ یوں ٹھہرتی جو مجھے قرار ہوتا

وہ جہاں میں آگ لگتی کہ بجھائے سے نہ بجھتی
مرے دود دل میں ثاقبؔ جو کوئی شرار ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse