وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہو گئیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہو گئیں
by عزیز لکھنوی

وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہو گئیں
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہو گئیں

تھیں جو کل تک جلوہ افروزی سے شمع انجمن
آج وہ شکلیں چراغ زیر داماں ہو گئیں

اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہو گئیں

دم رکا تھا جس کی الجھن سے مرے سینے میں آہ
پھر وہی زلفیں مرے غم میں پریشاں ہو گئیں

پھونک دی اک روح دیکھا زور اعجاز جنوں
جتنی سانسیں میں نے لیں تار گریباں ہو گئیں

عشق کے قصے کو ہم سادہ سمجھتے تھے مگر
جب ورق الٹے تو آنکھیں سخت حیراں ہو گئیں

چند تصویریں مری جو مختلف وقتوں کی تھیں
بعد میرے زینت دیوار زنداں ہو گئیں

اڑ کے دل کی خاک کے ذرے گئے جس جس طرف
رفتہ رفتہ وہ زمینیں سب بیاباں ہو گئیں

آئنے میں عکس ہے اور عکس میں جذب خلش
دل میں جو پھانسیں چبھیں تصویر مژگاں ہو گئیں

اس کی شام غم پہ صدقے ہو مری صبح حیات
جس کے ماتم میں تری زلفیں پریشاں ہو گئیں

شام وعدہ آئیے تو آپ اس کی فکر کیا
پھر بنا دوں گا اگر زلفیں پریشاں ہو گئیں

کس دل آوارہ کی میت گھر سے نکلی ہے عزیزؔ
شہر کی آباد راہیں آج ویراں ہو گئیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse