وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں
by مجاز لکھنوی

وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں
ورنہ میری نگہ شوق بھی مجبور نہیں

خاطر اہل نظر حسن کو منظور نہیں
اس میں کچھ تیری خطا دیدۂ مہجور نہیں

لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو نزدیک نہیں دور نہیں

جرأت عرض پہ وہ کچھ نہیں کہتے لیکن
ہر ادا سے یہ ٹپکتا ہے کہ منظور نہیں

دل دھڑک اٹھتا ہے خود اپنی ہی ہر آہٹ پر
اب قدم منزل جاناں سے بہت دور نہیں

ہائے وہ وقت کہ جب بے پیے مدہوشی تھی
ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں

حسن ہی حسن ہے جس سمت اٹھاتا ہوں نظر
اب یہاں طور نہیں برق سر طور نہیں

دیکھ سکتا ہوں جو آنکھوں سے وہ کافی ہے مجازؔ
اہل عرفاں کی نوازش مجھے منظور نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse