وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
by ولی دکنی

وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا

اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر
عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا

جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی
تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا

کیوں ہو سکیں جگت کے دل بر ترے برابر
تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا

گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر
جاں بخش مجھ کو تیرا آواز ہے سراپا

مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دل دار مہرباں ہے
ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.