وہ مے پرست ہوں بدلی نہ جب نظر آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ مے پرست ہوں بدلی نہ جب نظر آئی
by شاد لکھنوی

وہ مے پرست ہوں بدلی نہ جب نظر آئی
سمٹ گئیں جو سیہ کاریاں گھٹا چھائی

سفید بال ہوئے شب ہوئی جوانی کی
دمیدہ صبح ہوئی چونک سر پہ دھوپ آئی

حرم میں خاک ہوا ہوں وہ عاشق برباد
میان دیر ہواے بتاں اڑا لائی

میں وہ ہوں بلبل باغ جہاں کوئی گل ہو
دیا دل اس کو محبت کی جس میں بو پائی

چمن میں جا کے جو پوچھا بہار گل کا ثبات
کھلی نہ تھی جو کلی مسکرا کے مرجھائی

حصار حسن کے ہالے میں منہ نظر آیا
ملا کے ہاتھ جو لی اس حسیں نے انگڑائی

میں وہ کسان ہوں کھیتی پہ برق نے جس کی
دعا جو مینہ کے لیے کی تو آگ برسائی

رہے مدام یوں ہی عشق میں تہ و بالا
جو غم سے بیٹھ گیا دل تو اٹھنے آنکھ آئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse