وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
by انوری جہاں بیگم حجاب

وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
تو ہم بھی جان دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں

در پیر مغاں پر اس طرح مے خوار بیٹھے ہیں
کہ کچھ مخمور بیٹھے ہیں تو کچھ سرشار بیٹھے ہیں

اگر وہ گالیاں دینے پر آمادہ ہیں خلوت میں
تو ہم بھی عرض مطلب کے لیے تیار بیٹھے ہیں

گلا میں کاٹ لوں خود اک اشارہ ہو جو ابرو کا
وہ کیوں میرے لیے کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں

سہارا جب دیا ہے کچھ امید وصل نے آ کر
تو اٹھ کر بستر غم سے ترے بیمار بیٹھے ہیں

حجاب ان سے وہ میرا پوچھنا سر رکھ کے قدموں پر
سبب کیا ہے جو یوں مجھ سے خفا سرکار بیٹھے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse