وہ مقام دل و جاں کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ مقام دل و جاں کیا ہوگا
by باقی صدیقی

وہ مقام دل و جاں کیا ہوگا
تو جہاں آخری پردا ہوگا

منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہوگا

سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں
کون اس دھوپ میں چلتا ہوگا

تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کوئی کیا ہوگا

ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں
آئنہ اور بھی دھندلا ہوگا

راز سر بستہ ہے محفل تیری
جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہوگا

اس طرح قطع تعلق نہ کرو
اس طرح اور بھی چرچا ہوگا

بعد مدت کے چلے دیوانے
کیا ترے شہر کا نقشہ ہوگا

سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے
کوئی تو بات سمجھتا ہوگا

پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں
کوئی تو دیدۂ بینا ہوگا

خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہوگا

ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے
اور تو سامنے بیٹھا ہوگا

خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ
پھر کسی بات پہ جھگڑا ہوگا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse