وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
by شوق قدوائی

وہ لے کے دل کو یہ سوچی کہیں جگر بھی ہے
نظر ٹٹول رہی ہے کہ کچھ ادھر بھی ہے

ہنسو نہ کھول کے زلفیں بلا نصیبوں پر
بلا نصیب جہاں میں تمہارا سر بھی ہے

وہ بگڑے سن کے مگر سن تو لی ہماری آہ
یہ بے اثر ہی نہیں بلکہ با اثر بھی ہے

جنون کو وہ بناوٹ سمجھ رہا ہے ابھی
یہ سن لیا ہے کسی سے کہ میرے گھر بھی ہے

فراق میں یہ نیا تجربہ ہوا مجھ کو
کہ ایک رات زمانے میں بے سحر بھی ہے

یہ کہہ کے حشر سے بھاگا میں اپنا جی لے کر
الٰہی خیر یہاں تو وہ فتنہ گر بھی ہے

مجھے تو آپ میں اس وقت تم نہیں ملتے
کہاں ہو شوقؔ کچھ اپنی تمہیں خبر بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse