وہ عندلیب ہوں کہ صدا مجھ کو غم رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ عندلیب ہوں کہ صدا مجھ کو غم رہا
by کیپٹن ڈامنگو پال لیزوا ذرہ

وہ عندلیب ہوں کہ صدا مجھ کو غم رہا
باغ جہاں میں نخل تمنا قلم رہا

وحشی وہ ہوں کہ حد عدم سے نہ بڑھ گیا
صحرا میں قیس کا میں قدم در قدم رہا

منظور ان کو صاف ہیں وعدہ خلافیاں
اے انتظار کیوں مری آنکھوں میں دم رہا

اکثر مری غزل میں جو نکتے ہیں رمز ہیں
عاجز جبھی ثنا میں ہر اہل قلم رہا

عادت سجود کی جو تھی عہد شباب میں
پیری میں بھی صدا قد عاشق میں خم رہا

ذرہ نئی غزل کہی یکتاؔ کے فیض سے
گو درد مشق شعر و سخن تجھ کو کم رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse