وہ عالمگیر جلوہ اور حسن مشترک تیرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ عالمگیر جلوہ اور حسن مشترک تیرا
by شاد عظیم آبادی

وہ عالمگیر جلوہ اور حسن مشترک تیرا
خدا جانے ان آنکھوں کو ہوا کس کس پہ شک تیرا

بتا حد سے سوا ہم پاؤں پھیلائیں کدھر جائیں
فقط دو گز زمیں اپنی ہے اور ساتوں فلک تیرا

کیا اے سونے والے رحم صبح وصل نے تجھ پر
کہ جوں جوں کھلتی ہیں آنکھیں مٹا جاتا ہے شک تیرا

بس اب حد ہے کہ غیروں تک کا دامن جا کے پکڑا ہے
ڈگے کس کس جگہ ہم ہو گیا کس کس پہ شک تیرا

ترے نقش قدم کی گرد تک پہنچے نہ واماندہ
بہت پیچھا کیا اے کارواں کوسوں تلک تیرا

غذائے روح ہے اے حسن تو اپنی ملاحت سے
ہر اک کے ذائقے میں ٹھیک ہے آب و نمک تیرا

اگر آنکھیں سلامت ہیں تو کیا کیا کچھ دکھائے گا
یہی پھیلا ہوا جلوہ سما سے تا سمک تیرا

مری ہم دردیوں سے ہو گئی غیروں کو اک عبرت
لیا گھبرا کے جب جب نام نامی بے دھڑک تیرا

نہ پوچھو عشق نے غیرت سے کیا کیا رنگ بدلا ہے
خیال آیا ہے ساتھ اوروں کے جب جب مشترک تیرا

فقط زاہد پہ کیا موقوف سب کی رال ٹپکی ہے
وہ شوخی وہ نمو کے دن وہ چہرہ بے ڈلک تیرا

بہت تو نے جب اپنے پاؤں پھیلائے تو کیا چارہ
ادب کرتی رہی اے اشک مدت تک پلک تیرا

عبث الجھا کے رکھا ہے کوئی انصاف بھی آخر
امیدیں ساتھ دیں گی شادؔ آخر کب تلک تیرا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse