وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
by ہجر ناظم علی خان

وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
تو ماہتاب فلک کو حجاب آئے گا

خبر نہ تھی کہ مٹیں گے جوان ہوتے ہی
اجل کا بھیس بدل کر شباب آئے گا

پڑے گا عکس جو ساقی کی چشم میگوں کا
نظر شراب میں جام شراب آئے گا

ہزار حیف کہ سر نامہ بر کا آیا ہے
سمجھ رہے تھے کہ خط کا جواب آئے گا

کلیم ہاں دل بیتاب کو سنبھالے ہوئے
سنا ہے طور پہ وہ بے نقاب آئے گا

جو آرزو ہے ہماری وہ کہہ تو دیں لیکن
خیال یہ ہے کہ تم کو حجاب آئے گا

یہ شوخیاں تری اس کم سنی میں اے ظالم
قیامت آئے گی جس دن شباب آئے گا

کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں
کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا

چلا ہے ہجرؔ سیہ کار بزم جاناں کو
ذلیل ہو کے یہ خانہ خراب آئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse