وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے
by بیخود دہلوی

وہ سن کر حور کی تعریف پردے سے نکل آئے
کہا پھر مسکرا کر حسن زیبا اس کو کہتے ہیں

اجل کا نام دشمن دوسرے معنی میں لیتا ہے
تمہارے چاہنے والے تمنا اس کو کہتے ہیں

مرے مدفن پہ کیوں روتے ہو عاشق مر نہیں سکتا
یہ مر جانا نہیں ہے صبر آنا اس کو کہتے ہیں

نمک بھر کر مرے زخموں میں تم کیا مسکراتے ہو
مرے زخموں کو دیکھو مسکرانا اس کو کہتے ہیں

زمانے سے عداوت کا سبب تھی دوستی جن کی
اب ان کو دشمنی ہے ہم سے دنیا اس کو کہتے ہیں

دکھاتے ہم نہ آئینہ تو یہ کیوں کر نظر آتا
بشر حوروں سے اچھا تم نے دیکھا اس کو کہتے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.