وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
by منیرؔ شکوہ آبادی

وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
اڑتی ہوئی ناگن قد آدم نظر آئی

ہے پنجۂ رنگیں میں ہمارا دل بے تاب
یہ آگ تو سیماب سے باہم نظر آئی

آغاز میں ہستی کی اجل آ گئی اے دل
جو چیز مؤخر تھی مقدم نظر آئی

شبنم کی ہے انگیا تلے انگیا کے پسینہ
کیا لطف ہے شبنم تہ شبنم نظر آئی

مجروح کیا الفت ابرو نے دم حج
محراب حرم ناخن ضیغم نظر آئی

ادنیٰ ہے یہ اے جان سراپے کی لطافت
پرچھائیں تری حور مجسم نظر آئی

زنجیر پہننے سے ہوا قیدیوں کا نام
ہر ایک کڑی حلقۂ خاتم نظر آئی

توبہ کی مگر نشہ سے اس حور شیم نے
کیوں آتش مے نار جہنم نظر آئی

تم بالوں کو کھولے ہوے گلشن میں جو آئے
ہر شاخ شجر زلف نمط خم نظر آئی

بد ظن نہ ہو کس طرح منیرؔ آج خدارا
مسکی ہوئی اے بت تری محرم نظر آئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse