وہ زار ہوں کہ سر پہ گلستاں اٹھا لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ زار ہوں کہ سر پہ گلستاں اٹھا لیا
by حاتم علی مہر

وہ زار ہوں کہ سر پہ گلستاں اٹھا لیا
وہ خار ہوں کہ پہلوے گل کو دبا لیا

کیا مجھ سے چال چلتے وہ میں بھی ہوں چالیا
کترا کے چل دیئے تھے کہ بندہ نے جا لیا

کیا بات بوسۂ لب جاں بخش یار کے
پنجے سے موت کے مجھے اس نے بچا لیا

میں جیسے نالے کرتا ہوں ان کے خیال میں
گائے تو اس طرح سے گویا خیالیا

ان کی گلی کے کتے سے تو منہ کی کھائے گا
ہڈی کا میرے نام جو تو نے ہما لیا

تصویر کھینچتا ہوں سراپائے یار کی
ہیں عالم مثال کہ شعر مثالیا

اٹھوا دیا رقیب کو واں بیٹھ بیٹھ کے
ایسے جمے کہ ہم نے بھی نقشہ جما لیا

داغوں کی بس دکھا دی دوالی میں روشنی
ہم سا نہ ہوگا کوئی جہاں میں دیوالیہ

کہنے لگے مرید کہ پہنچے ہوئے ہیں آپ
موسیٰ بنا وہ ہاتھ میں جس نے عصا لیا

ایسے نہ جیب کترے کہیں ہیں نہ گٹھ کٹے
پہلو میں بیٹھتے ہی دل اس نے اڑا لیا

آیا شباب روپ پہ حسن و جمال ہے
اس باغ میں بہار نے رنگ اب جما لیا

واعظ حساب دیں گے وہاں تجھ سے دانہ زد
رزاق کا ہے شکر جو کھلوایا کھا لیا

یاد آ گئی جو ہم کو وہ گردن صراحی دار
شیشہ کو مے کدہ میں گلے سے لگا لیا

للہ بوئے گل سے نہ کر مجھ کو بد دماغ
خوشبو اڑا کے ان کے بدن کی صبا لیا

آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام
چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse