وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
by جلالؔ لکھنوی

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو
پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا

چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں
شب فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا

خبر کو یار کی بھیجا تھا گم ہوئے ایسے
حواس رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا

جلالؔ باغ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse