وہ جو بولیں تو بات جاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ جو بولیں تو بات جاتی ہے
by داغ دہلوی

وہ جو بولیں تو بات جاتی ہے
چپ رہوں میں تو رات جاتی ہے

ساتھ حوروں کے ہے شہید ترا
کیا عدم کو برات جاتی ہے

مے کے پینے سے کر تو لوں توبہ
آرزوئے نجات جاتی ہے

دل لگی کا مزہ جب آتا ہے
ہستی بے ثبات جاتی ہے

خوب آتا ہے لطف آزادی
جب یہ قید حیات جاتی ہے

کیا کروں داغؔ وصل میں شکوہ
بات کہنے میں رات جاتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse