وہ بیکلی نہیں دل کو وہ اضطراب نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ بیکلی نہیں دل کو وہ اضطراب نہیں
by نسیم میسوری

وہ بیکلی نہیں دل کو وہ اضطراب نہیں
تمہارے ہجر کا اب کچھ مجھے عتاب نہیں

جلا بھنا ہوں مجھے خواہش کباب نہیں
پلا دے دھو کے سبو ہی اگر شراب نہیں

سنا ہے ہم نے کہ عارض پہ ہے غبار سا کچھ
بلا سے خط کا ہمارے اگر جواب نہیں

تری خبر کے لئے دیکھتے ہیں سب اخبار
مطالعہ میں کسی کے کوئی کتاب نہیں

رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت
تمہاری زلف سے خاطر کو پیچ و تاب نہیں

پلانا تول کے بادۂ مغاں خدا کے لئے
یہ دن شرف کے ہیں میزاں میں آفتاب نہیں

فرار کیوں نہ ہو ہر روز جاں نثار اک ایک
حضور آپ کی وہ دولت شباب نہیں

تمہارے زلف کی تصویر کیا کرے سیراب
خطا معاف ہو ہم تشنۂ سراب نہیں

نسیمؔ پی گئے اب مے کدوں میں ہے کیا خاک
دوا کے واسطے لندن میں بھی شراب نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse