وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
by آرزو لکھنوی

وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
کہ خود کہتے نہیں کچھ اور کہلواتے ہیں ہاں مجھ سے

بہت کچھ حسن ظن رکھتا ہے میرا مہرباں مجھ سے
کہ تہمت دھر کے ہے خواہان تائید بیاں مجھ سے

کسی گل کی قبا ملتی نہیں تحریق سے خالی
جنوں نے لے کے بانٹی ہیں یہ کتنی دھجیاں مجھ سے

پلا ساقی کہ رہ جائے خمار کیف کا پردہ
بس اب رکتیں نہیں آتی ہوئی انگڑائیاں مجھ سے

جو گل کو گل نہ سمجھو گے تو کانٹوں ہی میں الجھو گے
نہ دو اپنے کو دھوکا آپ ہو کر بد گماں مجھ سے

بہت جلدی نہ کر اے چشم تر کچھ دیر کو دم لے
بیاں کرنا وہ تو رہ جائے جتنی داستاں مجھ سے

مثال شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے

ہوئیں تا دیر پہچانی ہوئی آواز میں باتیں
وہ کچھ کچھ کھل چلے ہیں رکھ کے پردہ درمیاں مجھ سے

تصور کی نظر پردوں کے روکے رک نہیں سکتی
بتا او جانے والے چھپ کے جائے گا کہاں مجھ سے

اگر اے آرزوؔ ہر سانس دل کی آہ بن جائے
نہ ہوگی ختم پھر بھی میری لمبی داستاں مجھ سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse