وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال و پر تعویذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال و پر تعویذ
by احمد حسین مائل

وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال و پر تعویذ
ہیں دونوں بازو پہ اس کے ادھر ادھر تعویذ

وہ ہم نہیں جو ہوں دیوانے ایسے کاموں سے
کسے پلاتے ہو پانی میں گھول کر تعویذ

اٹھے گا پھر نہ کلیجے میں میٹھا میٹھا درد
اگر لکھے مرے دل پر تری نظر تعویذ

کہاں وہ لوگ کہ جن کے عمل کا شہرا تھا
کچھ اس زمانے میں رکھتا نہیں اثر تعویذ

پلایا سانپ کو پانی جو من نکال لیا
نہانے بیٹھے ہیں چوٹی سے کھول کر تعویذ

وہاں گیا جو کوئی دل ہی بھول کر آیا
رکھے ہیں گاڑ کے اس نے ادھر ادھر تعویذ

پس فنا بھی محبت کا سلسلہ نہ مٹا
ترے گلے میں ہے اور میری قبر پر تعویذ

یہ بھید ہے کہ نہ مردے ڈریں فرشتوں سے
بنا کے قبر بناتے ہیں قبر پر تعویذ

یہ کیا کہ زلف میں رکھا ہے باندھ کر مرا دل
اسے بھی گھول کے پی جاؤ جان کر تعویذ

جو چاند سے ہیں بدن ہیں وہ چاند تاروں میں
گلوں میں ہیکلیں ہیکل کے تا کمر تعویذ

ہوئے ہیں حضرت مائلؔ بھی دل میں اب قائل
کچھ ایسا لکھتی ہے اے جاں تری نظر تعویذ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse