وہ اپنے مطلب کی کہہ رہے ہیں زبان پر گو ہے بات میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ اپنے مطلب کی کہہ رہے ہیں زبان پر گو ہے بات میری
by بشیر الدین احمد دہلوی

وہ اپنے مطلب کی کہہ رہے ہیں زبان پر گو ہے بات میری
ہے چت بھی ان کی ہے پٹ بھی ان کی ہے جیت ان کی ہے مات میری

کبھی وہ ملتا ہے دشمنوں سے کبھی وہ ملتا ہے مجھ سے آ کر
جو دن ہے میرا تو رات ان کی جو دن ہے ان کا تو رات میری

کبھی ہے تولہ کبھی ہے ماشہ کبھی ہیں ناخوش کبھی ہیں وہ خوش
قرار ان کو نہیں ہے دم بھر ہے تاک ان کی تو گھات میری

یہ بات کیا ہے یہ ماجرا کیا یہ راز کیا ہے یہ واقعہ کیا
کہ ہاں میں ہاں سب ملا رہے ہیں وہ کر رہے ہیں صفات میری

ارادہ ہے میں لکھوں فسانہ کسی کی کچھ دل شکستگی کا
قلم شکستہ پڑا کدھر ہے کہاں ہے کوئی دوات میری

ادھر بنی ہے دل حزیں پر ادھر تو سرگرم ناز ہیں وہ
کوئی یہ آ کر تماشا دیکھے ادا ہے ان کی ممات میری

یہ ہو رہا ہے تماشہ کیسا ادھر تو غم ہے ادھر ہے شادی
کبھی اٹھے گا جنازہ میرا کبھی سجی تھی برات میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse