وہ اٹھ کر قیامت اٹھانا کسی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ اٹھ کر قیامت اٹھانا کسی کا
by راجہ نوشاد علی خان

وہ اٹھ کر قیامت اٹھانا کسی کا
وہ دل تھام کر بیٹھ جانا کسی کا

برا گر نہ مانو تو اتنا کہیں ہم
کہ اچھا نہیں ہے ستانا کسی کا

مری آہ نے ان کو تڑپا دیا ہے
جنہیں کھیل تھا دل دکھانا کسی کا

زباں گو ہوئی بند بسمل کی لیکن
لب زخم پر ہے فسانہ کسی کا

اٹھے میرے پہلو سے دل تھام کر وہ
قیامت ہوا یاد آنا کسی کا

مرے دشمن جاں سب اہل جہاں میں
کہ عاشق ہے سارا زمانہ کسی کا

عجب کیا ہزاروں کو بیمار ڈالے
کسی کی عیادت کو جانا کسی کا

ترے وصل سے ناز ہے کیوں عدو کو
رہے گا نہ یکساں زمانہ کسی کا

مجھے اور بھی بد گماں کر رہا ہے
قسم میرے سر کی نہ کھانا کسی کا

تڑپنے میں کیا جانے کیا منہ سے نکلے
نہ دکھتا ہوا دل دکھانا کسی کا

وہ نوشادؔ کا چھیڑنا وصل کی شب
وہ شرما کے آنکھیں جھکانا کسی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse