وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے  (1900) 
by حبیب موسوی

وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے
چلو دیکھیں تلوار چلتے ہوئے

نہ دیکھا ترے دور میں اے فلک
نہال تمنا کو پھلتے ہوئے

ہیں انگشت حیرت بدنداں مسیح
وہ مردے جلاتے ہیں چلتے ہوئے

چلو مے کدہ محفل وعظ سے
یہ عمامے دیکھو اچھلتے ہوئے

زباں پر ترا نام جب آ گیا
تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے

محبت میں پائے ہر اک راہ سے
ہزاروں ہی رستے نکلتے ہوئے

ہیں کیا ان کی زلفیں یہ اے دل نہ پوچھ
چھلاوے کو دیکھا ہے چھلتے ہوئے

بنے جزو تن جب چبھے خار غم
یہ کانٹے نہ دیکھے نکلتے ہوئے

کیا کچھ نہ جب تک رہا اختیار
جہاں سے چلے ہاتھ ملتے ہوئے

غم عشق پیدا ہوا میرے ساتھ
اسے گزری اک عمر پلتے ہوئے

رکے کس طرح تیغ ابرو کا وار
سنا ہے اجل کو بھی ٹلتے ہوئے

ان آنکھوں کے فتنوں کا کیا پوچھنا
یہ جادو ہیں لاکھوں میں چلتے ہوئے

نہیں شمع عارض پہ خط جمع ہیں
ہزاروں ہی پروانے جلتے ہوئے

فسانے ہیں مشہور عشاق کے
کٹی عمر فرقت میں جلتے ہوئے

جواں مرتے دیکھے بہت نامراد
سنا ہوگا ارماں نکلتے ہوئے

نہیں کھیل چلنا رہ عشق میں
ذرا پاؤں رکھنا سنبھلتے ہوئے

جو مشہور ثابت قدم تھے حبیبؔ
انہیں ہم نے دیکھا پھسلتے ہوئے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse