وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
by کیفی حیدرآبادی

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
حسن بار چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے

میں کہوں تو کیا کہوں اب وہ کہے تو کیا کہے
دے کے دل خاموش ہوں وہ لے کے دل خاموش ہے

اے وفور شادمانی یہ سمجھ لینے تو دے
کیا ہمیں ہیں جس سے وہ ہم بزم ہم آغوش ہے

اس طرف دل پر جگر پر اس طرف رہتا ہے ہاتھ
اپنی ہر کروٹ میں اک معشوق ہم آغوش ہے

تار اس کا ٹوٹنے پائے نہ کیفیؔ حشر تک
دامن اشک ندامت جرم عصیاں پوش ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse