وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے
by صفی اورنگ آبادی

وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے
محبت کرنے والا ہر طرح مجبور ہوتا ہے

جہاں جاتے ہیں ہم اس کی گلی سے ہو کے جاتے ہیں
اگرچہ راستہ اس راستے سے دور ہوتا ہے

نہیں رکتے گھڑی بھر طالب دیدار کے آنسو
یہ ظالم شوق گویا آنکھ کا ناسور ہوتا ہے

کوئی مجنوں کی عزت عشق کی سرکار میں دیکھے
بڑی خدمت پہ ایسا آدمی مامور ہوتا ہے

حسینوں کا تنزل بھی نہیں ہے شان سے خالی
بڑھاپے میں بھی ان لوگوں کے منہ پہ نور ہوتا ہے

وہ ایسی خندہ پیشانی سے ہر معروضہ سنتے ہیں
یہ سمجھے عرض کرنے والا اب منظور ہوتا ہے

تجھے مشہور ہونا ہو تو عاشق کی برائی کر
برائی سے بہت جلد آدمی مشہور ہوتا ہے

ہمارے گھر وہ آ کر تھک گئے ہاں کیوں نہ تھک جاتے
نیا رستہ جو ہو نزدیک بھی تو دور ہوتا ہے

جو تم وابستۂ دامن کو سمجھے داغ بدنامی
تو اب کیا دور کر سکتے ہو اب یہ دور ہوتا ہے

بڑا احسان ہوگا میرے دل کا خون کر ڈالو
یہی مجبور کرتا ہے یہی مجبور ہوتا ہے

مجھے تم جانتے ہو عقل سے معذور ہاں بے شک
محبت کرنے والا عقل سے معذور ہوتا ہے

حسین ہر ایک ہو سکتا نہیں بے شک صفیؔ بے شک
وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse