وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں
by سید یوسف علی خاں ناظم

وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں
وہی یوسف ہے زنداں میں وہی لیلیٰ ہے محمل میں

ہزاروں بن گئی ہیں کشتگان خال کی قبریں
جگہ تل بھر نہیں باقی زمین کوئے قاتل میں

نہیں روشن دلوں کی قدر کچھ ارباب ظاہر کو
اجازت بیٹھنے کی شمع کو دی کس نے محفل میں

یہ عالم نور کا ہے جلوۂ داغ محبت سے
نہیں کچھ فرق میرے دل میں اور خورشید منزل میں

سیاہی خون سودا کی یہ وقت قتل کام آئی
لگایا سرمہ چشم جوہر شمشیر قاتل میں

یہ کس زہرہ جبیں کی انجمن میں آمد آمد ہے
بچھایا ہے قمر نے چاندنی کا فرش محفل میں

نظر آتا نہیں مانند ابرو ایک ماہ نو
مہینوں رہتی ہیں وہ حسرتیں مد مقابل میں

نہ ہو منکر نہ ہو منکر خدا وہ ہے خدا وہ ہے
رجوع قلب ہو جاتے ہے جس کی سمت مشکل میں

نہیں جوہر لیے ہیں بسکہ شوق قتل میں بوسے
ہمارے نقش دنداں ہیں لب شمشیر قاتل میں

وہ آوارہ ہوں میں ہے ختم مجھ پر تیز رفتاری
کہ ہیں مقراض دونوں پاؤں میرے قطع‌‌ منزل میں

تمہارے گیسوئے پیچاں کی جب تعریف لکھتا ہوں
قلم پابند ہو جاتا ہے مصرعوں کی سلاسل میں

فلک پر جائے عیسیٰ ہے گیا زیر زمیں قاروں
زمین و آسماں کا فرق پایا حق و باطل میں

بشر تنہا نہیں دیوانے اس شمشاد‌ قامت کے
شجر جکڑے ہوئے ہیں عشق پیچی کی سلاسل میں

مٹا حرف محبت آپ کے عارض پہ خط نکلا
ہمارا نام اب لکھیے تو لکھیے فرد باطل میں

امید‌ معدلت اس شاہ سے ہے مجھ کو اے ناظمؔ
ہوئی جس کی ولادت بھی زمان شاہ عادل میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse