وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
by حیدر علی آتش

وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
تری آنکھوں کی بیماری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی نشو نمائے سبزہ ہے گور غریباں پر
ہوائے چرخ زنگاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

تعلق ہے وہی تا حال ان زلفوں کے سودے سے
سلاسل کی گرفتاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی سر کا پٹکنا ہے وہی رونا ہے دن بھر کا
وہی راتوں کی بیداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

رواج عشق کے آئیں وہی ہیں کشور دل میں
رہ و رسم وفا جاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی جی کا جلانا ہے پکانا ہے وہی دل کا
وہ اس کی گرم بازاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

نیاز خادمانہ ہے وہی فضل الٰہی سے
بتوں کی ناز برداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

فراق یار میں جس طرح سے مرتا تھا مرتا ہوں
وہ روح و تن کی بے زاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی سودائے کاکل کا ہے عالم جو کہ سابق تھا
یہ شب بیمار پر بھاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

جنوں کی گرم جوشی ہے وہی دیوانوں سے اپنی
وہی داغوں کی گلکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی بازار گرمی ہے محبت کی ہنوز آتشؔ
وہ یوسف کی خریداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse