وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
by قلق میرٹھی

وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
وہی چشم ہے وہی راہ ہے وہی صبح ہے وہی شام ہے

وہی خستہ حال خراب ہے وہی خواب کشتۂ خواب ہے
وہی زندگی کو جواب ہے نہ سلام ہے نہ پیام ہے

وہی جوش نالہ و آہ میں وہی شعلہ جان تباہ میں
وہی برق یاس نگاہ میں جو خیال ہے سو وہ خام ہے

وہی خواب و خور کی تلاش ہے وہی جان و دل میں خراش ہے
وہی رنج غیر معاش ہے مجھے زندگی بھی حرام ہے

وہی ہجر دشمن وصل ہے وہی مرگ و زیست میں فصل ہے
وہی اپنے شغل سے شغل ہے وہی اپنے کام سے کام ہے

وہی شق جگر نہ سیو سیو وہی زیست ہے نہ جیو جیو
وہی خون دل نہ پیو پیو وہی بادہ ہے وہی جام ہے

وہی شوق راہ ہے رہنما وہی جلوہ گاہ ہے رخ کشا
وہی بزم ناز ہے جا بہ جا وہی ہر قدم پہ مقام ہے

وہی نیم جاں دم واپسیں وہی نالہ کش سخن حزیں
وہی یاس زیست ہے دل نشیں کہ زباں پہ آپ کا نام ہے

وہی رنج ہے تو یوں ہی سہی وہ قلقؔ ہی تھا کہ یوں ہی نبھی
مری آپ کو بھی ہے بندگی مرا عشق کو بھی سلام ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse