وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
by نظام رامپوری

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
مرے پاس کیوں آپ آنے لگے

کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے
بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے

یہ کیا جذب دل کھینچ لایا انہیں
مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے

ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے

ہمارے ہی آگے گلے غیر کے
ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے

نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب
تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse