وہی عاشق ہے قاتل کا نہ جو شاکی وہاں ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی عاشق ہے قاتل کا نہ جو شاکی وہاں ہوگا
by بیخود موہانی
323297وہی عاشق ہے قاتل کا نہ جو شاکی وہاں ہوگابیخود موہانی

وہی عاشق ہے قاتل کا نہ جو شاکی وہاں ہوگا
جسے دار جزا سمجھے ہیں دار امتحاں ہوگا

جدا سب عالموں سے ایک دن تیرا جہاں ہوگا
محبت کی زمیں ہوگی وفا کا آسماں ہوگا

نہ میں دیر و حرم سمجھوں نہ میں عرش و ارم جانوں
جہاں سجدے کو دل جھک جائے تیرا آستاں ہوگا

امیدیں دل کی وابستہ ہیں میدان قیامت سے
نہ اس جا یہ زمیں ہوگی نہ واں یہ آسماں ہوگا

چھڑایا جس نے دامن کاش اس کو یہ خبر ہوتی
کہ عنوان قیامت درد دل کی داستاں ہوگا

وہ جنت ہے جو زاہد کے سفر کی آخری منزل
اسی میں پہلی منزل پر ہمارا کارواں ہوگا

اسیری میں گری ہیں آہ لاکھوں بجلیاں دل پر
جہاں بجلی گری سمجھے ہمارا آشیاں ہوگا

فراق جاودانی انتقام وصل جاناں ہے
مگر صدقے ترے جانے بھی دے اے آسماں ہوگا

فسانہ دہر و گلزار و بہار و گل کا رہنے دے
اگر کچھ ہے بھی اے بیخودؔ سوائے آشیاں ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse