وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب
by ہوش بلگرامی

وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب
کوئی کیا سمجھ سکے گا غم زندگی کا مطلب

مری بے قراریاں ہیں مری زندگی کا حاصل
یہی مسلک محبت یہی اہل دل کا مذہب

مرے غم کی پرسشوں سے انہیں اجتناب کیوں ہے
وہ سمجھ گئے ہیں شاید مری ہر نظر کا مطلب

غم دل ہے راز ہستی نہ بلندیاں نہ پستی
یہ حقیقتیں تو سمجھا دل بے خبر مگر کب

نہ مری خزاں مقرر نہ مری بہار قائم
جو مجھے ملی ہے یہ بھی کوئی زندگی ہے یا رب

میں حدیث غم سناؤں میں وفا کا ساز چھیڑوں
جو زباں نہ کھل سکی تو جو کسی نے سی دئے لب

کوئی ہوشؔ کہہ سکا ہے غم دل کبھی زباں سے
وہ سوال کر رہے ہیں میں کہوں تو کیا کہوں اب

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse