وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا
by شکیب جلالی

وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا

یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو سادا تھا

میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد
ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا

ادھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا

وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

میں ساحلوں میں اتر کر شکیبؔ کیا لیتا
ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse