وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
by شکیب جلالی

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں
اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت

نہ جانے رت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب
کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت

ہوا کا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ
مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے بہت

یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرہ
میں اپنے دشت سے گزرا تو بھید پائے بہت

جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت

بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت

جمی رہے گی نگاہوں پہ تیرگی دن بھر
کہ رات خواب میں تارے اتر کے آئے بہت

شکیبؔ کیسی اڑان اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے
کہ زیر دام جب آئے تھے پھڑپھڑائے بہت

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse