وقت کی چیز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وقت کی چیز  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

سب جسے انتہا کہیں تو اسے ابتدا سمجھ
ہو نہ اسی سمجھ پہ خوش یوں ہی بڑھائے جا سمجھ
ذوق سفر گھٹا نہ دے لوگ کہیں جو نا سمجھ
حاصل مدعا کو بھی پرتو مدعا سمجھ
اور بلندیوں پہ جا راز عروج کا سمجھ

دل میں ہے درد قوم اگر قوم کی جلد لے خبر
قوم سے ہیں جو بے خبر قوم کی ان کو دے خبر
سوچ کہ اپنی قوم سے کون ہے آج بے خبر
کام کا آدمی ملے یا نہ ملے کسے خبر
کیا نہیں تو خود آدمی خود کو ہی کام کا سمجھ

تیرے حدود میں کہیں آئیں نظر نہ پستیاں
لائق اعتنا نہ ہوں غیروں کی چیرہ دستیاں
درخور التفات ہوں کیوں یہ ذلیل ہستیاں
جس کی خودی پہ چھین لیں قوم کی خود پرستیاں
ایسے خودی نواز کو قوم کا رہنما سمجھ

قوت زر سے جو بشر آئی بلا کو ٹال دے
اس کی کرامتوں میں جس اور بھی ذوالجلال دے
اس سے اگر ہے بد ظنی دل میں تو اب نکال دے
قوم کی مفلسی کو جو معرض شک میں ڈال دے
ایسے بھی مال دار کو مکرمت آشنا سمجھ

تو نہ رکھ اتنی حب زر دل میں مگر یہ رکھ خیال
وقت کی چیز بن گئی آج نمود جاہ و مال
تیرے نمود پر کرے فخر ہر ایک با کمال
عزت قوم کا ہے جز عزت نفس کا سوال
اپنے بھی ارتقا کو تو قوم کا ارتقا سمجھ

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse