وقت رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وقت رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں
by باقی صدیقی

وقت رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں
دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں

صحبت شیشہ گراں ہے انکار
سنگ آئینہ بنا ہے کہ نہیں

ہر کرن وقت سحر کہتی ہے
روزن دل کوئی وا ہے کہ نہیں

رنگ ہر بات میں بھرنے والو
قصہ کچھ آگے بڑھا ہے کہ نہیں

زندگی جرم بنی جاتی ہے
جرم کی کوئی سزا ہے کہ نہیں

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

زخم دل منزل جاں تک آئے
سنگ رہ ساتھ چلا ہے کہ نہیں

کھو گئے راہ کے سناٹے میں
اب کوئی دل کی صدا ہے کہ نہیں

ہم ترسنے لگے بوئے گل کو
کہیں گلشن میں صبا ہے کہ نہیں

حکم حاکم ہے کہ خاموش رہو
بولو اب کوئی گلہ ہے کہ نہیں

چپ تو ہو جاتے ہیں لیکن باقیؔ
اس میں بھی اپنا بھلا ہے کہ نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse