وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے
by مضطر خیرآبادی

وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے
مرتے مرتے دے دیا انگور کا پانی مجھے

وہ مری صورت تو دیکھیں اپنی صورت کے لیے
کاش آئینہ بنا دے میری حیرانی مجھے

کٹ گیا ہے وصل سے پہلے زمانہ عمر کا
ہائے دھوکا دے گیا بہتا ہوا پانی مجھے

دامن صحرا سے لوں گا مر کے وحشت میں کفن
اک نیا جوڑا پنہائے گی یہ عریانی مجھے

میرے گل کو لا یا اپنے پھول لے جا عندلیب
ایسے کانٹوں سے نہیں پھانسیں نکلوانی مجھے

تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

تشنہ کامی اس کو کہتے ہیں کہ بحر عشق میں
میں اگر اتروں تو اوپر پھینک دے پانی مجھے

ایسی مشکل تم نے ڈالی ہے کہ جب مر جاؤں گا
مدتوں رویا کرے گی میری آسانی مجھے

تو نے اتنی دی کہ مے خواری کی حسرت بہہ گئی
میں نے اتنی پی کہ آخر ہو گئی پانی مجھے

رونے جاتا ہوں میں اپنی حسرتوں کے ڈھیر پر
بے کسی آ کر سکھا دے مرثیہ خوانی مجھے

حشر میں چلنا پڑے گا ایک ٹیڑھا راستہ
کوچۂ جاناں سکھا دے ٹھوکریں کھانی مجھے

مضطرؔ اپنے حق کے کانٹے چن کے میں رخصت ہوا
اور کیا دیتی بہار گلشن فانی مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse