وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا
by امداد علی بحر

وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا
ہم تو دنیا سے گئے آپ سے آیا نہ گیا

راز پوشی سے کبھی ہاتھ اٹھایا نہ گیا
نبض دکھلائے مرض اپنا بتایا نہ گیا

پھوٹ نکلی نہ رکی سینے کی اندر خوشبو
مشک تھا داغ محبت کہ چھپایا نہ گیا

میرا دل کس نے لیا نام بتاؤں کس کا
میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا

ہاتھ اٹھا بیٹھے ہم اس زندگیٔ شیریں سے
غم جدائی کا یہ تھا تلخ کہ کھایا نہ گیا

جب کیا قصد کہ احسان کسی کا لوں میں
آبرو گھٹنے لگی ہاتھ بڑھایا نہ گیا

آج وہ حال ہے اپنا جو کسی نے پوچھا
ہو گئے قفل دہن شرم بتایا نہ گیا

رنج پوچھا جو محبت میں تو راحت سمجھے
دکھ اٹھایا کبھی دل اس سے اٹھایا نہ گیا

کچھ نہ پوچھو لب شیریں کی حلاوت ہم سے
یہ وہ حلوا ہے کبھی بانٹ کے کھایا نہ گیا

حیف آنکھوں نے بھی دیکھی نہ مری تشنہ لبی
منہ میں پانی مژۂ ترسی چوایا نہ گیا

ناتوانی کا برا ہو ہم ادھر کو جو چلے
تیور آ آ گئے گر گر پڑے جایا نہ گیا

مغز چاٹا کبھی اندوز و نصیحت والے
غم ہمارا کسی غم خوار سے کھایا نہ گیا

دوست کب دوست کا ہوتا ہے مخل راحت
سو گئے پاؤں تو ہاتھوں سے جگایا نہ گیا

کب حرارا دل بیتاب کا رونے سے مٹا
شعلۂ برق کبھی منہ سے بجھایا نہ گیا

آمد یار کی کیا کیا نہ سنی گرم خبر
عمر بھر راستہ دیکھا کوئی آیا نہ گیا

جس کے جویا ہوئے ہم ڈھونڈھ نکالا اس کو
عقل غم ہے کہ مزاج آپ کا پایا نہ گیا

اس کے کوچے سے ضعیفی میں بھی اٹھے نہ قدم
سر پہ دھوپ آ گئی دیوار کا سایا نہ گیا

قطع جب سے ہوئی امید وصال جاناں
اس طرح بیٹھ گیا دل کہ اٹھایا نہ گیا

جاگنا ہی مری تقدیر میں کیا لکھا تھا
شب فرقت میں اجل سے بھی سلایا نہ گیا

قصد تھا بحرؔ کا بت خانے سے کعبے کی طرف
لاابالی ہے خدا جانے گیا یا نہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse