وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
by حسرتؔ عظیم آبادی

وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
بھرے ہے ساقی یہاں پیالے ز آب اول دوم بہ آتش

چمن میں جوش جنوں کے ہیں اشک اور داغ دروں سے اپنے
کروں شگفتہ گل اور لالے ز آب اول دوم بہ آتش

ہمارے اشک اور آہ کی موجیں باندھ دیتی ہیں سب جو دوری
بنے ہیں ماہ فلک پہ ہالے ز آب اول دوم بہ آتش

جہاں کے سب گرم و سرد دیکھے نہ ذوق ہے ان میں کچھ نہ لذت
دو روز چھاتی یہاں پکالے ز آب اول دوم بہ آتش

دو حکم ہیں شاہ عشق کے ان میں ایک گلنا ہے ایک جلنا
ہیں دفتر درد میں قبالے ز آب اول دوم بہ آتش

نہ کھول واعظ کتاب دانش کہ آتش عشق و آب مے سے
دھوؤں جلاؤں ترے رسالے ز آب اول دوم بہ آتش

ستم ہے آفت ہے مہر یا کیں بلا یہ عشق ستیزہ گر کی
دلوں کے خانے اجاڑ ڈالے ز آب اول دوم بہ آتش

پڑے ہیں ہم خون دل میں غلطاں جگر ہے داغ جفا سے سوزاں
کوئی ہے اپنے تئیں سنبھالے ز آب اول دوم بہ آتش

وصال کی جستجو میں حسرتؔ چلا نہ زاری نہ زور کا کچھ
بہت سے یاں ہم نے ڈھب نکالے ز آب اول دوم بہ آتش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse