وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں
by سائل دہلوی

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں
حریف قمری و پروانۂ ہزار ہوں میں

جدا جدا نظر آتی ہے جلوۂ تاثیر
قرار ہو گیا موسیٰ کو بے قرار ہوں میں

خمار جس سے نہ واقف ہو وہ سرور ہیں آپ
سرور جس سے نہ آگاہ ہو وہ خمار ہوں میں

سما گیا ہے یہ سودا عجیب سر میں مرے
کرم کا اہل ستم سے امیدوار ہوں میں

عوض دوا کے دعا دے گیا طبیب مجھے
کہا جو میں نے غم ہجر سے دو چار ہوں میں

شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے
خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں

قرار داد گریباں ہوئی یہ دامن سے
کہ پرزے پرزے اگر ہو تو تار تار ہوں میں

مرے مزار کو سمجھا نہ جائے ایک مزار
ہزار حسرت و ارماں کا خود مزار ہوں میں

ظہیرؔ و ارشدؔ و غالبؔ کا ہوں جگر گوشہ
جناب داغؔ کا تلمیذ و یادگار ہوں میں

امیر کرتے ہیں عزت مری ہوں وہ سائلؔ
گلوں کے پہلو میں رہتا ہوں ایسا خار ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse