وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
Appearance
وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
جو دوست ہمارا ہے سو دشمن ہے ہمارا
یہ کاہ ربا سے بھی ہیں کم اے کشش دل
مذکور کچھ ایسا پس چلمن ہے ہمارا
افسوس موئے شمع شب وصل کی مانند
جو قہقہہ شادی ہے سو شیون ہے ہمارا
مہتاب کا کیا رنگ کیا دود فغاں نے
احوال شب تار سے روشن ہے ہمارا
دیتا نہیں اس ضعف پہ بھی جوش جنوں چین
ہر ریگ رواں دشت میں توسن ہے ہمارا
تفریح نہ کیونکر ہو ہوا آ نہیں سکتی
گویا در و دیوار نشیمن ہے ہمارا
گر پاس ہے لوگوں کا تو آ جا کہ قلق سے
ہے لاش کہیں اور کہیں مدفن ہے ہمارا
جذب دل اسے کھینچ کے لائے تو کہاں لائے
جو غیر کا گھر ہے وہی مسکن ہے ہمارا
بت خانے سے کعبے کو چلے رشک کے مارے
مومنؔ خضر راہ برہمن ہے ہمارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |