وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
by مومن خان مومن

وعدۂ وصلت سے دل ہو شاد کیا
تم سے دشمن کی مبارک باد کیا

کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا

نالۂ پیہم سے یاں فرصت نہیں
حضرت ناصح کریں ارشاد کیا

ہیں اسیر اس کے جو ہے اپنا اسیر
ہم نہ سمجھے صید کیا صیاد کیا

شوخ بازاری تھی شیریں بھی مگر
ورنہ فرق خسرو و فرہاد کیا

نشۂ الفت سے بھولے یار کو
سچ ہے ایسی بے خودی میں یاد کیا

نالہ اک دم میں اڑا ڈالے دھوئیں
چرخ کیا اور چرخ کی بنیاد کیا

جب مجھے رنج دل آزاری نہ ہو
بے وفا پھر حاصل بیداد کیا

پانوں تک پہنچی وہ زلف خم بہ خم
سرو کو اب باندھئے آزاد کیا

کیا کروں اللہ سب ہیں بے اثر
ولولہ کیا نالہ کیا فریاد کیا

ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا

روز محشر کی توقع ہے عبث
ایسی باتوں سے ہو خاطر شاد کیا

گر بہائے خون عاشق ہے وصال
انتقام زحمت جلاد کیا

بت کدہ جنت ہے چلیے بے ہراس
لب پہ مومنؔ ہرچہ بادا باد کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse