وعدہ کبھی سچا کوئی کرتا ہی نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وعدہ کبھی سچا کوئی کرتا ہی نہیں ہے
by ریاض خیرآبادی

وعدہ کبھی سچا کوئی کرتا ہی نہیں ہے
اندیشۂ فردا تو گزرتا ہی نہیں ہے

دامن کی شکن دور سے لیتی ہے بلائیں
بل یار کے ابرو کا اترتا ہی نہیں ہے

دل سے تو مرے سینے کے پھر داغ ہی اچھے
کم بخت ابھارے سے ابھرتا ہی نہیں ہے

سب بھول گئے اس کو ترے عہد ستم میں
اب شکوۂ گردوں کوئی کرتا ہی نہیں ہے

جو جانتے ہیں بڑھ کے نشیمن سے قفس کو
پر ایسوں کے صیاد کترتا ہی نہیں ہے

کیا چیز ہے اے بادہ کشو موسم گل بھی
اس دور میں توبہ کوئی کرتا ہی نہیں ہے

اپنے ستم و جور اسے لاکھ سکھاؤ
درباں سے تمہارے کوئی ڈرتا ہی نہیں ہے

یوں پسنے کو دل لاکھ پسیں برگ حنا پر
وہ ہاتھ کبھی خون میں بھرتا ہی نہیں ہے

کیا آ گئی اس میں دل بیتاب کی الجھن
گیسو ہے کسی کا کہ سنورتا ہی نہیں ہے

سمجھا ہے اثر کوئی بلا آہ کو میری
ڈرتا ہے وہ گردوں سے اترتا ہی نہیں ہے

جب تک کوئی آئے نہ لب بام نکھر کر
رنگ شفق شام نکھرتا ہی نہیں ہے

دیوانہ ریاضؔ اوروں سے کیا بات کرے گا
معشوقوں سے تو بات وہ کرتا ہی نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse