وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا
by آرزو لکھنوی

وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا
کل بدل جائے گی دنیا مجھے معلوم نہ تھا

حسن ہے مشغلۂ ظلم کو گہرا پردہ
پس پردہ ہے اندھیرا مجھے معلوم نہ تھا

عشق وہ شے ہے کہ چرکے بھی مزہ دیتے ہیں
ورنہ قاتل ہیں حسیں کیا مجھے معلوم نہ تھا

دل کی ضد اس لئے رکھ لی تھی کہ آ جائے قرار
کل یہ کچھ اور کہے گا مجھے معلوم نہ تھا

جھوٹی امیدوں نے کیا کیا نہ ہرے باغ لگائے
وقت جھونکا ہے ہوا کا مجھے معلوم نہ تھا

جتنے قسمت کے سہارے تھے وہ جھوٹے نکلے
ہے بندھی مٹھیوں میں کیا مجھے معلوم نہ تھا

برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہونچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا

راز غم فاش نہ ہو اس لئے روکی تھی زباں
چپ بھی رہ کر یہی ہوگا مجھے معلوم نہ تھا

دل مزے لیتا ہے جس غم کے وہ ہے کاہش جاں
زہر بھی ہوتا ہے میٹھا مجھے معلوم نہ تھا

عشق آباد کے ناکے ہی سے رخصت ہوئے ہوش
ہے یہ دیوانوں کی دنیا مجھے معلوم نہ تھا

ہوگا امروز کی صورت میں ظہور فردا
وعدہ یوں روز ٹلے گا مجھے معلوم نہ تھا

آرزو ہاں بھی حسینوں کی نہیں ہوتی ہے
ان کی ہر بات ہے دھوکا مجھے معلوم نہ تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse