وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو
by ریاض خیرآبادی

وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو
یہ سن کے کس ادا سے کہا رات بھی تو ہو

ہم لیں بلائیں زلف کی وہ رات بھی تو ہو
آئے مزے کی رت کہیں برسات بھی تو ہو

گزرے یوں ہی تو توبہ کے دن اب سوا پیوں
ساقی ذرا تلافئ مافات بھی تو ہو

اظہار آرزو کوئی ایسی خطا نہ تھی
کیوں تیوریاں چڑھی ہیں کوئی بات بھی تو ہو

پاپوش ان حسینوں کی آتی ہے میرے گھر
ان کی نظر میں کچھ مری اوقات بھی تو ہو

مینا کی طرح جا کے ابھی سر جھکائیں ہم
پیر مغاں سا قبلۂ حاجات بھی تو ہو

ہم میکدے کو چھوڑ کے کعبے کے ہو رہیں
کعبے میں اس طرح کی مدارات بھی تو ہو

بیعت کو سوئے شیخ بڑھیں گے ہزار ہاتھ
حضرت سے کچھ ظہور کرامات بھی تو ہو

کہنے کو اٹھ رہے گی ستم گر سے کوئی بات
محشر کے روز مجھ سے ملاقات بھی تو ہو

بنت عنب بچھائے گی دامن پئے نماز
زاہد مرید پیر خرابات بھی تو ہو

تم کو ریاضؔ جانتے ہیں خوب یہ حسیں
جتنے ہو نیک اتنے ہی بد ذات بھی تو ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse