وطن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وطن
by عظمت اللہ خاں

مری جان ہو کہ مرا بدن
ترا جلوہ گاہ ہے اے وطن
تری خاک ان کا خمیر ہے
مرے خون میں یہ جھلک تری
مری نبض میں یہ چپک تری
مری سانس تری صفیر ہے
تری خاک جگ کا خلاصہ ہے
تیرا حسن ایک تماشا ہے
تری پھیلی گود کہ باغ ہے
تری خاک پاک ذلیل ہے
تو غلامیوں کی دلیل ہے
تری پود شرم کا داغ ہے
تجھے ماسوا سے گرا دیا
ہمیں ماسوا نے مٹا دیا
ہوئے تفرقوں سے تمام ہم
تجھے جب تلک کہ بھلا رکھا
ہمیں وقت نے بھی مٹا رکھا
بنے گھر میں اپنے غلام ہم
ترے خون ہیں یہ پھٹے پھٹے
ترے پوت ہیں یہ بٹے بٹے
ترے دل جگر ہیں یہ بے وفا
ترا کچھ لہو ہی سفید ہے
کہ عجب طرح کا یہ بھید ہے
نہیں بھائی بھائی سے آشنا
نہیں غیر کا ہمیں کچھ گلا
کہ غلامیوں کا یہ پھل ملا
ہمیں تفرقہ کے جنون سے
ترے دودھ میں مری پیاری ماں
نہیں درد کی کوئی بجلیاں
کہ ملا دے خون کو خون سے
ہمیں بھائیوں سے غرور ہیں
ترے جہل و وہم میں چور ہیں
کہ جو کام ہیں سو خطا کے ہیں
کہیں ذات پات کی لاگ ہے
کہیں دین دھرم کی آگ ہے
کہیں بیر مفت خدا کے ہیں
جنہیں پیت ہے انہیں جیت ہے
یہی جگ میں جیت کی ریت ہے
ترے پوت اپنوں سے غیر ہیں
ہمیں غیریت یہ مٹانی ہے
ہمیں جیت آپ پہ پانی ہے
اسی گھر کے غیر سے غیر ہیں
ترے پوت بھائی ہیں بھائی ہوں
ترے دل سے سب ہی فدائی رہوں
کہ تو آپ اپنی مثال ہو
ترے زور کی یہی دھاک ہو
کہ جہاں برائی سے پاک ہو
ترا علم حق کا کمال ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse