وصل کے لمحے کہانی ہو گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کے لمحے کہانی ہو گئے
by فرحت کانپوری

وصل کے لمحے کہانی ہو گئے
شب کے موتی صبح پانی ہو گئے

رفتہ رفتہ زندگانی ہو گئے
غم کے لمحے جاودانی ہو گئے

دولت عہد جوانی ہو گئے
چند لمحے جو کہانی ہو گئے

کیسی کچھ رنگینیاں تھیں جن سے ہم
محو سیر دہر فانی ہو گئے

سکھ بھرے دکھ دکھ بھرے سکھ سب کے سب
واقعات زندگانی ہو گئے

مسکرائے آپ جانے کس لیے
ہم رہین شادمانی ہو گئے

باتوں ہی باتوں میں راتیں اڑ گئیں
ہائے وہ دن بھی کہانی ہو گئے

تم نے کچھ دیکھا خلوص جذب شوق
سنگ ریزے گل کے پانی ہو گئے

فرحتؔ ایسی بت پرستی کے نثار
بت بھی محو لن ترانی ہو گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse